Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


نئے سال کا ایک وعدہ – اور تبنیہہ

A NEW YEAR’S PROMISE – AND WARNING!
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُدواند کا دِن، دوپہر12:30، یکم جنوری، 2012
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day, 12:30 PM, January 1, 2012

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے، اگر ہم اُس کا انکار کریں گے تو وہ بھی ہمارا انکار کرے گا‘‘ (2 تیموتاؤس2:12)۔

لندن میں اپنی ابتدائی مذہبی خدمت کے دوران سی۔ ایچ۔ سپرجئین C.H. Spurgeon کو ہر سال کے آخر میں ایک لفافہ جس میں کاغذ کی ایک سِلپ ہوتی تھی موصول ہوتا تھا۔ اُس کاغذ پر کلام پاک کی ایک آیت ہوتی تھی جو نئے سال کے لیے اُن کے واعظ کے لیے استعمال کی جانی ہوتی تھی۔ اِن تلاوتوں کو اُس نوجوان اور انتہائی کامیاب بپٹسٹ مبلغ سپرجئین کے لیے انگلستان کے ایک گرجا گھر میں ایک بزرگ مذہبی رہنما کی جانب سے چُنا جاتا تھا۔ یہ بزرگ اینجلیکل مذہبی خادم ایک چھوٹے سے گاؤں کے گرجا گھر میں پادرانہ خدمات سرانجام دے رہے تھے، لیکن سپرجئین کے دِل میں اُن کے لیے شدید احترام تھا، اور کئی سالوں تک تسلسل کے ساتھ اُس عظیم بپٹسٹ مبلغ نے اپنے نئے سال کے واعظ دعا کی بھرپوری کے ساتھ چُنی گئی اُس آیت پر دیے جو نئے سال پر اُن کے لیے دوسرے فرقے کے اِس قابلِ احترام اور پاکیزہ شخص کی جانب سے چُنی جاتی تھی۔ اُنہوں نے اُس مذہبی خادم کا نام ظاہر نہیں کیا، لیکن سپرجئین نے ہمیشہ تزکرہ کیا کہ اُس بزرگ اینجلیکل کاہن نے اُس آیت کو چُنا تھا جس کی وہ نئے سال پر منادی کریں گے۔

3 جنوری، 1864 کے روز بھی سپرجئین نے ایک مرتبہ پھر اُسی بوڑھے پادری کی جانب سے اُنہیں بھیجی گئی آیت پر تبلیغ کی۔ 1864 میں نئے سال کے لیے تحفے میں بھیجی گئی وہ تلاوت تھی،

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے، اگر ہم اُس کا انکار کریں گے تو وہ بھی ہمارا انکار کرے گا‘‘ (2 تیموتاؤس2:12)۔

میں آپ کو سپرجئین کے واعظ کا مختصر اور ترمیم کیا ہوا نسخہ پیش کر رہا ہوں۔ میں نے پہلے نکتے کو کسی حد تک اُن مسیحیوں کے بے شمار واقعات کو سامنے لانے کے لیے پھیلا کر پیش کیا ہے جنہوں نے دورِ حاضرہ میں اپنے ایمان کے لیے تکلیفیں برداشت کیں۔ دوسرے نکتے میں مسیح کی انکاری کے بارے میں دو ہولناک مثالوں کو میں شامل کروں گا، جنہیں سپرجئین نے بذاتِ خود اپنے واعظ ’’یسوع کے ساتھ تکیفیں برداشت کرنا اور بادشاہی کرنا Suffering and Reigning with Jesus‘‘ میں پیش کیا (سی۔ ایچ۔ سپرجئین، میٹروپولیٹن کی عبادت گاہ کے منبر سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگرِم اشاعت خانے، دوبارہ اشاعت1991، جلد دہم، صفحات1۔12)۔

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے، اگر ہم اُس کا انکار کریں گے تو وہ بھی ہمارا انکار کرے گا‘‘ (2 تیموتاؤس2:12)۔

تلاوت قدرتی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے: یسوع کے ساتھ تکلیفیں اُٹھانا، اور اُن کا انعام – یسوع کے ساتھ مرنا اور اُس کی سزا۔

I۔ پہلی بات، یسوع کے ساتھ تکیفیں اُٹھانا اور اُن کا انعام۔

تکلیفیں اُٹھانا تمام لوگوں کی ایک عام سی حالت ہے۔ اِس سے فرار ممکن نہیں ہے۔ جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو تکلیف ہی میں اِس دُنیا میں آتے ہیں، اور جب ہم مرتے ہیں تو تکلیف ہی میں مرتے ہیں۔ جیسا کہ ایوب اِسے تحریر کرتا ہے،

’’انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے چند روزہ ہے اور مصیبت کا مارا ہوا بھی‘‘ (ایوب14:1)۔

کوئی بھی زندگی کی آزمائشوں اور دُکھوں سے بچ نہیں سکتا۔ دوبارہ، ایوب کی کتاب میں پڑھتے ہیں،

’’اِنسان دُکھ اُٹھانے کے لیے پیدا ہوا ہے، چنگاریوں کی طرح جو اُوپر کو اُٹھتی رہتی ہیں‘‘ (ایوب5:7)۔

گناہ کی تباہ کی گئی دُنیا میں تکلیفیں اُٹھانا چونکہ تمام لوگوں کی عام مقدر ہے، تو اِس کا مطلوبہ طور پر یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اِن کا تجربہ کرنے کے لیے آپ کو انعام دیا جائے گا۔ اِس زندگی میں آپ کو شاید بہت بڑے بڑے دُکھوں سے گزرنا پڑے، لیکن وہ آپ کو آنے والے قہر سے بچا نہیں پائیں گی۔ آپ شاید انتہائی شدید مصیبتوں سے گزریں اور اِس کے باوجود گمراہ یا غیرنجات یافتہ ہیں رہیں، کیونکہ،

’’جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو، وہ خُدا کی بادشاہی کو نہیں دیکھ سکتا‘‘ (یوحنا3:3)۔

اور، یوں، زمین پر مصیبتوں کی کوئی بھی تعداد ایک غیرنجات یافتہ شخص کو جنت میں داخل ہونے میں مدد نہیں کر سکتی۔

تکلیفیں کوئی ایسی چیز نہیں ہیں جس کا تنہا مسیحی ہی تجربہ کرتے ہیں۔ نا ہی مصیبتیں فوری طور پر اپنے ساتھ انعام لاتی ہیں۔ یہ تلاوت نہایت واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ ہمیں اُس یسوع کے ساتھ دُکھ اُٹھانے ہیں اگر اُس کے ساتھ بادشاہی کرنی ہے۔ وہ دُکھ جن کا نتیجہ یسوع کے ساتھ بادشاہت کرنا ہوتا ہے وہ خُداوند یسوع مسیح کے ساتھ دُکھ ہونے چاہیے۔ آپ کو نہیں سوچنا چاہیے کہ آپ مسیح کے ساتھ دُکھ اُٹھا رہے ہیں اگر آپ مسیح ’’میں‘‘ نہیں ہیں۔ اگر آپ مسیح کے پاس نہیں آئے ہیں تو زمین پر آپ کے دُکھ جہنم میں تجربہ کرنے والے اُن دائمی دُکھوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ صرف جب بندہ مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کے ذریعے سے نجات دہندہ ’’میں‘‘ ہوتا ہے تو وہ تب ہی مسیح کے ساتھ رفاقت میں اپنے دُکھوں کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ کیا آپ اُس مسیح میں ایک جیتے جاگتے ایمان کے وسیلے سے ہیں؟ کیا آپ تنہا یسوع میں بھروسہ رکھتے ہیں؟ اگر نہیں، تو زمین پر آپ چاہے کیسی ہی مشکل اور بدنصیبی سے گزریں، تو آپ کے پاس یسوع کے ساتھ اُس کی بادشاہی میں حکومت کرنے کی کوئی اُمید نہیں ہوتی ہے۔

دوبارہ، ہمیں نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم مسیح کے ساتھ دُکھ اُٹھا رہے ہیں اگر ہمارے پاس مصیبت گناہ کے نتیجے میں آتی ہے۔ جب مریم نے موسیٰ کی بُرائی کے بارے میں بات کی تھی اور کوڑھ نے اُس کے جسم کو زہریلا کر دیا تھا تو وہ خُدا کے لیے دُکھ نہیں اُٹھا رہی تھی۔ جب عُزیّاہ غیرشرعی طور پر ہیکل میں آیا، اور اپنی باقی کی تمام زندگی کے لیے کوڑھی بن گیا، تو وہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ راستبازی کی خاطر دُکھ اُٹھا رہا تھا۔ اگر آپ جان بوجھ کر اپنے ہاتھ کو آگ میں ڈالتے ہیں اور یہ جل جاتا ہے، آپ کو جلانا آگ کی فطرت ہے۔۔ لیکن احمق مت بنیں اور شیخی مت ماریں کہ آپ ایک شہید ہیں! اگر آپ غلطی کرتے ہیں اور اِس کی وجہ سے دُکھ اُٹھاتے ہیں، تو آپ کو کیا انعام ملے گا؟ ہمیں یہ دعویٰ کرنے سے سچائی اور ایمانداری باز رکھتی ہے کہ ہم دُکھ اُٹھا رہے ہیں کیونکہ ہم مسیحی ہیں جبکہ، درحقیقت، گناہ کے نتیجے میں دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔

ہم میں مسیح کا روح ہونا چاہیے ورنہ ہمارے دُکھ قابلِ قبول نہیں ہونگے۔ ہمیں مسیح کی مثال کی پیروی کرنی چاہیے اور مسیح کے مقصد کی خاطر اِلزام کو برداشت کرنا چاہیے۔ صرف تب ہی ہم سچے طور سے مسیح کے ساتھ دُکھ اُٹھاتے ہیں۔

آئیے اب اُن کچھ طریقوں کے بارے میں سوچتے ہیں جن سے آج نیک مسیحی یسوع کے ساتھ دُکھ اُٹھاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو مسیح کی فرمانبرداری اور محبت میں مالی طور پر دُکھ اُٹھاتے ہیں۔ میں نے تھوڑی دیر پہلے ہمارے منادوں میں سے ایک کی جانب نشاندہی کی تھی، اور کافی سچائی کے ساتھ کہا تھا کہ ایک شخص موجودہ تنخواہ سے تین یا چار گُنا بہتر کما سکتا ہے اگر وہ اِتوار کو کام کرنے پر متفق ہو جاتا ہے۔ یہ ایک اور شخص کے بارے میں بھی سچا ہے، ایک خاتون جو ہمارے ہی گرجا گھر میں ایک طبّی ڈاکٹر ہیں۔ دونوں ہی ہر سال ہزاروں ڈالرز کا نقصان اُٹھاتے ہیں کیوںکہ وہ مسیح سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں کہ وہ خداوند کے دِن بھی اپنے پیشے میں کام کرتے ہیں۔ ہم ایسے مسیحی لوگوں کو جانتے ہیں جنہوں نے اپنی نوکریاں محض اِس لیے گنوا دیں کیونکہ اُن کو ملازمت دینے والے یعنی اُن کے آجر اُن کے خلاف اچھے مسیحی ہونے کی وجہ سے تعصب رکھتے ہیں! ہم ہائی سکول اور کالج میں طالب علموں کو جانتے ہیں جن کے گریڈز اُن اِساتذہ کی جانب سے کم کر دیے جاتے ہیں جو اُن سے اُن کے مسیح میں ایمان کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں! یہ وہ دُکھ ہیں جن کا ہماری تلاوت میں تذکرہ ہے!

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے…‘‘
(2 تیموتاؤس2:12)۔

تاہم، زیادہ کثرت میں، یہ دُکھ توھین، حقارت اور تحقیر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ کو پتا چلتا ہے کہ دوسرے اُن کے کام کرنے والی جگہ پر اُن پر حقارت آمیز انداز میں ھنستے ہیں اور ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں کہ یہ تو احمق، دھوکہ باز بیوقوف ہیں کیونکہ یہ خُدا کے بیٹے میں ایمان رکھتے ہیں۔ یہ خصوصی طور پر ایک تکلیف دہ ڈنگ ہوتا ہے جو نیک نوجوان مسیحی لوگوں کے لیے دُکھ کا سبب بنتا ہے، جب سکول میں دوست اُن سے کتراتے ہیں، اور اُن کی پیٹھ پیچھے مُنہ دبا کر ہنستے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ وہ ’’عجیب‘‘ ہیں کیونکہ وہ یسوع مسیح کے لیے ڈٹ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ گھر میں، سچے مسیحی اپنے غیر مسیحی والدین جو بُدھ مت مذہب کے یا دوسرے غیر مسیحی مذہب کے رُکن ہوتے ہیں اُن کے غرور سے بھرے ہوئے تبصروں سے بچ نہیں سکتے۔ خود اُن کے اپنے بھائی اور بہنیں اُنہیں شاید بیوقوف کہتے ہیں کیونکہ وہ نجات دہندہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ بھی وہ دُکھ ہیں جن کا تذکرہ ہماری تلاوت میں ہے،

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے…‘‘
(2 تیموتاؤس2:12)۔

اِس قسم کے دور میں، جو اِس قدر زیادہ یسوع اور اُس کے سچے پیروکاروں سے نفرت اور تعصب کے ساتھ بھرا ہوا ہے، تو نجات دہندہ کے الفاظ کو یاد رکھنا دانشمندی ہوتی ہے،

’’آدمی کے دشمن اُس کے اپنے گھر ہی کے لوگ ہونگے۔ جو کوئی اپنے باپ یا اپنی ماں کو مجھ سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی اپنے بیٹے یا بیٹی کو مجھ سے زیادہ پیار کرتا ہے میرے لائق نہیں۔ جو کوئی اپنی صلیب اُٹھا کر میرے پیچھے نہیں چلتا، میرے لائق نہیں‘‘ (متی10:36۔38)۔

بے اعتقادے لوگ کیوں مسیحیوں سے اِس قدر زیادہ نفرت کرتے ہیں؟ یسوع نے اِس کا جواب دیا جب اُس نے کہا،

’’اگر تم دُنیا کے ہوتے تو دُنیا تمہیں اپنوں کی طرح عزیز رکھتی لیکن اب تم دُنیا کے نہیں ہو کیونکہ میں نے تمہیں چُن کے دُنیا سے الگ کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ دُنیا تم سے دشمنی رکھتی ہے‘‘ (یوحنا15:19)۔

’’فیصلہ سازیت‘‘ کے اِن جھوٹے اور بدکار دِنوں میں، جو مسیحی سلطنت کے ’’تاریک ادوار‘‘ سے بے شمار طریقوں سے مماثلت رکھتے ہیں، بے شمار ایماندار پادری صاحبان کو بائبل کے لیے اور ہماری بپٹسٹ میراث کے لیے سچا ہونے پر شدید حملوں میں سے گزرنا چاہیے اُن لوگوں کو بپتسمہ دینے سے انکار کرنے کے ذریعے سے جن کے پاس مسیح نے اُنہیں نجات دلانے کے لیے کیا کیا اِس کے بارے میں واضح اور شہادت نہیں ہے! یہ بھی وہ دُکھ ہیں جن کا تذکرہ ہماری تلاوت میں ہے،

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے…‘‘
(2 تیموتاؤس2:12)۔

ہماری تلاوت کے بارے میں سوچنے کے علاوہ کوئی مدد نہیں کر سکتا جب اُس قابلِ قدر میگزین شُہدا کی آواز The Voice of Martyrs کو پڑھتے ہیں، جیسا کہ میں ہر مرتبہ پڑھتا ہوں جب میں اُسے ای میل میں موصول کرتا ہوں۔ 2006 کے دسمبر کے شمارے میں، انڈیا میں ایک پادری صاحب کے بارے میں بتایا گیا جسے تقریباً مار ہی ڈالا گیا تھا جب جنگجو ہندوؤں نے اُس پر حملہ کیا جس وقت وہ ایسٹر سنڈے کے موقع پر مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے پر تبلیغ کر رہا تھا۔ میگزین میں ایک تصویر اُس کا زخمی اور پٹیوں میں لپٹا ہوا چہرہ دکھاتی ہے (ibid.، صفحہ8)۔

چین میں، شُہدا کی آواز The Voice of Martyrs میگزین نے برادر لِیو Brother Liu کے بارے میں بتایا، جن کو خوشخبری کی منادی کرنے کے لیے اتنی مرتبہ گرفتار کیا جا چکا ہے کہ وہ اب گنتی بھول چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا، ’’خداوند نے ہمیں بتایا کہ اُس کی راہ پر چلنے کا راستہ مشکل ہے۔ یہ وہ سڑک ہے جہاں اُن پر چلنے والے کو یسوع کے پیچھے چلنے کے لیے اپنی صلیب اُٹھانی پڑتی ہے۔‘‘ کوڑے کھانے کی ایک سزا کے دوران، اُن کے کانوں کو ایک برقی ڈنڈے سے پیٹا گیا تھا۔ اُن کے زخم چھ ماہ تک اُن کے لیے شدید درد اور تکلیف کا سبب بنے رہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’میں اِن باتوں کا انتہائی زیادہ تجربہ کر چکا ہوں، لیکن … جو سب سے زیادہ قیمتی بات میں نے کبھی سیکھی ہے وہ یہ ہے کہ خُداوند نے ہمارے مقابلے میں زیادہ دُکھ اُٹھائے تھے۔ ہماری مصیبتوں کے وسط میں میرے خاندان نے برگشتگی اختیار نہیں کی۔ اِس کے بجائے، خُداوند کی پیروکاری کرنے میں ہم اور زیادہ جرأت مند ہو گئے۔ اب میرے بچے مذہبی خدمت میں ہیں… جو مرنے تک اُس یسوع کی پیروی کریں گے‘‘ (ibid.، صفحہ 11)۔

ویت نام سے، اُس میگزین نے تین مسیحیوں کی تصاویر دکھائیں، دو مرد اور ایک خاتون، تھان ہووا Than Hoa کے صوبے میں انجیلی بشارت کا پرچار کرنے پر اُن کے چہروں کا حقیقت میں مار مار کر کچومر نکال دیا تھا۔ اُنہیں چہروں پر اِس لیے مارا گیا تھا کیونکہ اُنہوں نے مسیح کے لیے گواہی دی تھی۔ ویت نام میں مسیحیوں کے خلاف ایک ظالمانہ تحریک کا آغاز ہوا جو اپریل 2006 میں بڑھ گئی۔ یہ اُس سال میں دوسری مرتبہ ہوا تھا کہ اِن تین مسیحیوں کو کیمونسٹ لوگوں کی ذریعے سے پیٹا گیا تھا۔ لیکن کوئی بھی بات اُنہیں روک نہ پائی! جب وہ تندرست ہوتے تو وہ واپس اُنہی سڑکوں پر نکل پڑتے، انجیلی بشارت کا پرچار کرتے! (ibid.، صفحہ13)۔ افسوسناک طور پر، یہاں تک کہ ریاست ہائے متحدہ میں، وہ جو مسیح کے لیے گواہی دیتے ہیں اُنہیں آج بھی کبھی کبھار اذیتیں دی جاتی ہیں۔

کولمبیا میں، شُہدا کی آواز The Voice of Martyrs میگزین نے 15برس کی ایک لڑکی کے بارے میں بتایا۔ اُس کے باپ نے اُس سے امثال31 میں عورت کی مانند ہونے کے لیے کہا تھا۔ پھر وہ کام پر چلا گیا۔ وہ ایک گرجا گھر میں مومن پادری تھا، لہٰذا کیمونسٹ گوریلے اُس کو گھسیٹ کر ایک پُل پر لے گئے اور مسیح میں اُس کے ایمان کی وجہ سے اُس کو قتل کر ڈالا۔ اُس کے تھوڑی ہی دیر بعد، وہ کیمونسٹ اُس لڑکی کے گاؤں میں واپس آئے۔ وہاں پر موجود تمام گرجا گھر 14ستمبر، 2005 تک بند ہو گئے تھے۔ پندرہ مسیحی ایک گھر میں دعا مانگنے اور بائبل پڑھنے کے لیے چُھپ کر اکٹھے ہوئے۔ اُن کے درمیان یہ 15 سالہ لڑکی جیکولین Jacquelynne بھی تھی۔ اُس نے کہا، ’’اگر آپ مشکل حالات دیکھتے ہو، تو آپ کو آگے بڑھتے رہنا جاری رکھنا چاہیے اور کسی بھی وجہ سے خُدا پر اعتبار نہیں چھوڑنا چاہیے‘‘ (ibid.، صفحہ 14)۔ ساری دُنیا میں مسیحیوں کے دُکھوں کے بارے میں بے شمار مذید اور کہانیاں پڑھنے کے لیے اپنے کمپیوٹر پر www.persecution.com پرجائیں۔ میں اُمید رکھتا ہوں کہ ہر کوئی جو یہ واعظ پڑھ رہا ہے ہر چند ایک ہفتے بعد اُس ویب سائٹ پر اِس مواد کا جائزہ لے گا۔

اِس قسم کے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہماری تلاوت کہتی ہے،

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے…‘‘
(2 تیموتاؤس2:12)۔

II۔ دوسری بات، یسوع کا انکار کرنا اور اُس کی سزا۔

آئیے کھڑے ہوں اور ساری تلاوت کو باآوازِ بُلند پڑھیں، 2 تیموتاؤس2:12 .

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے، اگر ہم اُس کا انکار کریں گے تو وہ بھی ہمارا انکار کرے گا‘‘ (2 تیموتاؤس2:12)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

ہولناک ’’اگر‘‘ اور اِس کے باوجود ایک ’’اگر‘‘ جس کا اِطلاق شاید آپ میں سے کچھ پر لاگو ہوتا ہے۔ ’’خُداوند، کیا یہ میں ہوں؟‘‘ وہ شاید کہتا ہے، جب وہ اِس دوپہر یہاں بیٹھتا ہے، بالکل جیسے یہوداہ نے آخری کھانے کے موقع پر کیا تھا، جب وہ جس نے مسیح کو دھوکہ دیا تھا بالکل یہی سوال پوچھتا ہے۔ اور اگر آپ پطرس کے مانند کہتے ہیں، ’’چاہے سارے لوگ تیرا انکار کریں، اِس کے باوجود میں نہیں کروں گا‘‘ – آپ شاید یہ کرنے کے لیے سب سے زیادہ اِمکان رکھتے ہیں۔

کچھ مسیح کا شدت کے ساتھ انکار کرتے ہیں۔ بے اعتقادوں کی حیثیت سے وہ اُس کا کھلم کُھلا مذاق اُڑاتے ہیں۔ دوسرے اُس کا انکار جھوٹے گرجا گھروں میں شمولیت اختیار کرنے سے کرتے ہیں، مذاہب جو اُس کی مکمل الوہیت کو بطور خُدا انسان کے رد کرتے ہیں، اور دوسرے جو اُس کا انکار یہ کہنے سے کرتے ہیں کہ وہ ایک روح ہے، ناکہ مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھا کوئی گوشت پوست کا جلالی انسان، جو خُدا کے داہنے ہاتھ پر بیٹھنے کے لیے آسمان میں اُٹھا لیا گیا۔

اِس کے باوجود دوسرے اِس کا انکار خاموش رہنے کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ جب وہ بے اعتقادوں کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ کھانا کھانے سے پہلے کھانے کی دعا مانگنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں، اِس خوف سے کہ اُن کے بے اعتقادے رشتہ دار اور دوست اِس بات کو قبول نہیں کریں گے۔ کچھ تو حد ہی سے گزر جاتے ہیں، اور اُس مسیح سے سرے سے ہی ناطہ توڑ دیتے ہیں جس پر پہلے اُنہوں نے بھروسہ کرنے کا اقرار کیا تھا۔

کیا یہ تفصیل آپ سے کچھ پر پوری اُترتی ہے؟ اگر یہ اُترتی ہے تو مجھ پر ناراض مت ہوں، بلکہ خُداوند کے کلام کو سُنیں۔ یہ جان لیں – کہ آپ نہیں مریں گے، حتیٰ کہ اگر آپ نے مسیح کا انکار بھی کیا ہو، اگر آپ ابھی نجات دہندہ کے پاس آ جائیں گے اور سچے طور پر اُس میں ایمان لا کر تبدیل ہو جائیں گے، دِل اور جان کے ساتھ۔ لیکن اگر آپ مسیح کا انکار کرتے رہنا جاری رکھیں، تو وہ ہولناک آیت آپ کا آسیب کی طرح پیچھا کرتی رہے گی،

’’وہ بھی ہمارا انکار کرے گا‘‘ (2 تیموتاؤس2:12)۔

سپرجئین نے فرانسس سپائرہ Francis Spira کی موت کے بارے میں بتایا تھا۔ اعلیٰ پیمانے کا ایک اصلاح پسند ہونے کی حیثیت سے، سپائرہ سچائی جانتا تھا۔ لیکن جب کاتھولک چرچ کی جانب سے اُسے موت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ منکر ہو گیا۔ اُس نے خوف میں مبتلا ہو کر اپنے پروٹسٹنٹ اعتقادوں کو چھوڑ دیا۔ تھوڑی ہی مدت میں وہ نااُمیدی کے ساتھ بھر گیا، اور زمین ہی پر ذہنی اور روحانی جہنم کی اذیت سہی۔ اُس کی چیخیں اِس قدر دھشت ناک تھیں کہ اُن کے ریکارڈ کو شائع نہیں کرنا چاہیے! اُس کی بدنصیبی اُس زمانے کے لیے جس میں اُس نے زندگی بسر کی ایک تنبیہہ تھی۔

سپرجئین کے جانشین، اُن کے گرجا گھر کے ایک سابق پادری صاحب بینجیمن کیچ Benjamin Keach نے ایک مبلغ کے بارے میں بتایا جو سادگی کے ساتھ اپنے پیوریٹن اعتقادوں کے بارے بتاتا تھا، لیکن بعد میں، ایک کاتھولک ایذارسانی کے دوران، اُس نے اپنے ایمان کا انکار کیا۔ اُس کے بسترِ مرگ کے نظارے ہولناک تھے۔ اُس نے کہا کہ حالانکہ اُس نے خُدا کو ڈھونڈ لیا تھا، خُداوند اُس کے خلاف تھا۔ اُس کو انتہائی مایوسی کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ کبھی کبھار وہ لعن طعن کرتا تھا۔ دوسرے موقعوں پر وہ دعا مانگتا۔ لیکن وہ بغیر اُمید ہی کے مر گیا۔ اگر ہم مسیح کا انکار کرتے ہیں، تو ہم بھی خود کے لیے ایسے ہی خوف سے بھرپور مقدر کے لیے شاید چھوڑ دیے جائیں۔

مسیح کو کھونے کے بجائے آئیے کچھ بھی اور کھو دیں۔ اپنی روحوں کے کھونے کے بجائے آئیے کچھ بھی اور کھو دیں۔ آئیے انڈیا میں، چین میں، ویت نام میں اور کولمبیا میں اُن نوجوان لوگوں کی مانند ہو جائیں جن کے بارے میں آپ کو میں نے بتایا، جو اپنے دُکھوں کے ذریعے سے پولوس رسول کے ساتھ کہنے کے قابل ہوئے،

’’لیکن جو کچھ میرے لیے نفع کا باعث تھا، میں نے اُسے مسیح کی خاطر نقصان سمجھ لیا ہے۔ میں اپنے خداوند یسوع مسیح کی پہچان کو اپنی بڑی خوبی سمجھتا ہوں اور اِس سبب سے میں نے دوسری تمام چیزوں سے ہاتھ دھو لیے ہیں اور اُنہیں کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کر لوں‘‘ (فلپیوں3:7۔8)۔

آئیے اِسی بات کو اپنا نصب العین بنائیں! آئیے اِسی بات کو اپنا ہدف بنائیں! آئیے اِسی بات کو آنے والے سال میں وہ بنائیں جس کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں! کیونکہ،

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے، اگر ہم اُس کا انکار کریں گے تو وہ بھی ہمارا انکار کرے گا‘‘ (2 تیموتاؤس2:12)۔

ایک دِن آپ میں سے کچھ لوگ اُس عظیم سفید تخت کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ مسیح آپ سے کہے گا، ’’میں تمہیں نہیں جانتا۔‘‘ تم دوستوں کی جانب سے جیسے تم ہو ایسے ہی رہنے کے لیے آزمائے گئے، ایک غیرنجات یافتہ حالت میں۔ تم نے اِس خوف سے کہ تمہیں کیا قیمت چکانی پڑے گی یا کیا مصیبتیں برداشت کرنی پڑیں گی مسیح کا انکار کیا۔ اُس دِن تم خداوند سے تمہیں جنت میں داخل ہونے کے لیے اِلتجا کرو گے۔ لیکن خداوند تم سے کہے گا،

’’میں تم سے کبھی واقف نہ تھا، اے بدکارو! میرے سامنے سے دور ہو جاؤ‘‘ (متی7:23)۔

’’اور یہ لوگ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی‘‘ (متی25:46)۔

اگر آپ جہنم کے ناگوار گڑھے سے بچنے کے لیے اُمید رکھتے ہیں، جو آگ اور گندھک کےساتھ جلتا ہے، تو میں آپ سے اِلتجا کرتا ہوں مسیح کو زور سے پکاریں، ’’خُداوندا، مجھے بچا۔ خُداوند، مجھے مضبوطی سے تھام، مجھے تھام لے، مجھے تھام لے، مجھے تھام لے! اپنے ساتھ دُکھ اُٹھانے میں میری مدد کر، لیکن مجھے تیرا انکار مت کرنے دے، کہیں تو میرا انصاف کے بھیانک دِن انکار نہ کر دے۔‘‘ آج کی دوپہر یسوع کے لیے آئیے اِسی کو اپنے دِل کی پکار بنائیں۔ اُس کے پاس آئیں اور اُس کے قیمتی خون کے وسیلے سے دُھل کر پاک صاف ہو جائیں، جو صلیب پر آپ کو گناہ سے دھونے کے لیے بہا تھا۔ کاش اِس دوپہر آپ مسیح کے پاس آ جائیں، اِس سال کے پہلے ہی دِن۔ کاش آپ اُس کے وسیلے سے بچایا گیا یہ نیا سال شروع کریں، مسیح میں ایمان لا کر تبدیل شُدہ حالت میں، اُس کے نجات دلانے والے فضل میں دائمی طور پر محفوظ! آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے تنہا گیت گایا تھا:
’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے Jesus, I My Cross Have Taken‘‘ (شاعر ھنری ایف۔ لائٹ Henry F. Lyte، 1793۔1847)۔

لُبِ لُباب

نئے سال کا ایک وعدہ – اور تبنیہہ

A NEW YEAR’S PROMISE – AND WARNING!

ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے، اگر ہم اُس کا انکار کریں گے تو وہ بھی ہمارا انکار کرے گا‘‘ (2 تیموتاؤس2:12)۔

I.    پہلی بات، یسوع کے ساتھ دُکھ اُٹھانا اور اُس کا انعام، 2 تیموتاؤس، 2:12الف؛
ایوب14:1؛ 5:7؛ یوحنا3:3؛ متی10:36۔38؛ یوحنا15:19 .

II.   دوسری بات، یسوع کا انکار کرنا اور اُس کی سزا، 2 تیموتاؤس2:12 ب؛
فلپیوں3:7۔8؛ متی7:23؛ 25:46 .